Tinker Bell

Add To collaction

وہ شخص آخرش مجھے بےجان کر گیا

قسط # ٢


' ونیسہ یہ کیا کیا۔' شارمین نے زرد پڑتے ہوئے کہا۔ 

' یار  مجھے کیا پتہ تھا کہ آذان ہو جائے گی۔' ونیسہ نے پریشانی سے کہا۔

' ونیسہ میں اسے فیس نہیں کر سکتی اگر سچ میں میری شادی اس سے ہو گئی تو  میں بتا رہی ہوں میں  نے بے ہوش ہو جانا ہے۔' شارمین  نے رونے والے  ایموجی سنڈ کر کہ کہا۔

' شارمین میں تمہیں بتا رہی ہوں اگر ایسا کچھ بھی ہوا نہ تو میں نے تمہارا بائے کوٹ کر دینا ہے اور کبھی  بھی بات نہیں کروں گی چاہے میں مر بھی کیوں نہ رہی ہوں۔' ونیسہ نے دھمکی دی۔

' یار ونی پلیز ایسے تو نہیں کہو۔' اب کی شارمین  کی آنکھوں میں  آنسو آ گئے۔ 

' اچھا ایسا کرتے ہیں جا کر نماز پڑھتے ہیں اور دعا کرتے ہیں۔' ونیسہ نے مشورہ دیا۔

' ہاں یہ ٹھیک ہے۔' شارمین نے جواب دیا کہ موبائل رکھ دیا نماز پڑھنے چلی گئی۔

*********************

' مما آپ اس بارے میں سیریس ہیں؟' فہد نے نسرین بیگم سے پوچھا جو کچن میں کھانا بنا رہی تھیں۔

' ہاں! تمہارے پاپا جانی آئیں تو ان سے بات کروں گی، دیکھتے ہیں وہ کیا کہتے ہیں۔'

 یہ سن کر فہد خاموش ہو گیا۔ نسرین بیگم نے فہد کی خاموشی کو محسوس کرتے ہوئے چولہا بند کیا اور فہد کے پاس بیٹھ گئیں۔

' اب اس میں اتنا خفا ہونے والی کیا بات ہے بیٹا؟' نسرین بیگم نے فہد کو پیار کرتے ہوئے کہا۔ 

' اور ہم کون سا ساتھ ہی رخصت کر دیں گے۔ ابھی تمہارے پاپا سے بات کروں گی۔ پھر وہ اور تمہارے چاچو لڑکے سے ملیں گے، اس کے بارے میں پتا کریں گے۔ اس سب میں ایک دو مہینے لگیں گے۔ پھر اگر وہ مطمئن ہو گئے تو بات پکی ہو گی اور دو تین سال بعد شادی۔' 

' مما آپ نے تو ساری پلینگ کر لی ہوئی ہے۔' فہد حیران ہو گیا اپنی ماں کی جلدبازی پر۔

' ہر بیٹی کے والدین سوچتے ہیں بیٹا۔' نسرین بیگم نے ہنستے ہوئے کہا۔

' یہ ماں بیٹا کس بات پر ہنس رہے ہیں؟' شارمین نے کچن میں آتے ہوئے پوچھا۔

' کچھ خاص نہیں، بس مما کو میرے آوٹ ہونے کی خوشی ہو رہی ہے۔' فہد نے منہ بناتے ہوئے کہا جس پر شارمین کے ساتھ نسرین بیگم بھی ہنس پڑیں۔

' یارا فہد کیا چیز ہو تم، ایک گیم ہی تو تھی۔ اتنا دل سے لگانے کی کیا ضرورت ہے۔' شارمین نے ہنستے ہوئے کہا۔ 

فہد نے نفی میں سر ہلایا یوں جیسے شارمین  کی عقل پر ماتم کر رہا ہو!

' اچھا میں جا کر نماز پڑھتا ہوں۔' یہ کہہ کر فہد چلا گیا۔ لیکن شارمین کی پر سوچ نظروں نے دور تک پیچھا کیا۔

' یہ ضرور کچھ چھپا رہا ہے، چلو بعد میں پوچھتی ہوں۔' شارمین یہ سوچ کر مطمئن ہو گئی اور نسرین بیگم کی مدد کرنے لگی۔

*******************

ہتھیلی پر اداس چہرہ ٹکائے وہ سوچوں میں گم تھی۔ 

' میری گڑیا کیوں اداس ہے؟' دائم نے تانیہ کو اپنے ساتھ لگاتے ہوئے پوچھا۔

' اسلام علیکم بھائی۔ آپ کب آئے؟' وہ اپنی سوچوں میں اتنی گم تھی کہ اسے دائم کے آنے کا پتا ہی نہیں چلا۔

' جب میری گڑیا سوچوں کی وادی میں گھوم رہی تھی۔' دائم نے تانی کو پیار کرتے ہوئے کہا۔

' آپ کے لیے پانی لاؤں؟'

 ' نہیں! پانی چھوڑو اور اب اچھے بچوں کی طرح بتاؤ کیوں اداس ہو۔' دائم نے پچکارتے ہوئے پوچھا۔

' بھائی۔۔۔۔۔۔' بھائی کی توجہ اور محبت ملتے ہی تانی کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ 

'  تانی بچے کیا ہوا، رو کیوں رہی ہو۔' دائم تانی کے یوں رونے سے پریشان ہو گیا اور کیوں نہ ہوتا، آخر دونوں بھائیوں کی جان بستی تھی تانی میں۔

' پائیز بھائی آج نہیں آ رہے، انہوں نے کہا ہے کہ وہ سنڈے کو آئیں گے۔' تانی نے روتے ہوئے کہا۔

' تو بچے اس میں رونے کی کیا بات ہے؟ وہ بزی ہوگا نا۔' تانی کے آنسو صاف کرتے ہوئے دائم نے سمجھاتے ہوئے کہا۔

' لیکن بھائی کل میری برتھ ڈے ہے، اور پچھلے تین سالوں کی طرح اس بار بھی بھائی نہیں ہوں گے۔'

آنسو پھر چھلک پڑے۔ اب دائم بھی اداس ہو گیا۔ کیونکہ پائیز ہر بار تانی  کو بارہ بجے وش کے ساتھ  ایک نیا سرپرائز دیتا تھا۔ جس کی وجہ سے تانی کو اپنی برتھڈے سے زیادہ سرپرائز کا انتظار ہوتا تھا۔ لیکن جب سے پائیز  گیا تھا، سرپرائز کا یہ سلسلہ بھی ختم ہو گیا تھا۔ دائم سے تانی  کہ آنسو برداشت نہیں ہو رہے تھے۔

' لیکن یہ بھی تو دیکھو کہ وہ اپنی خوشی سے تو نہیں گیا نہ، پڑھنے کے لیے گیا ہے۔ اور اتنی مصروفیت کے باوجود  بھی وہ وش تو آپ کو اپنے ٹائم پر ہی کرتا ہے اور گفٹ بھی بھجواتا ہے۔' دائم نے تانی کے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔

'مجھے کوئی گفٹ کوئی وش نہیں چاہیے۔ مجھے اپنا بھائی چاہیئے۔' تانی نے بچوں کی طرح دائم کا ہاتھ جھٹکتے روتے ہوئے کہا تو دائم نہ چاہتے ہوئے بھی مسکرا اٹھا۔ یہ تانیہ کی بچپن کی عادت تھی، اسی طرح کر کے وہ اپنی ضد پوری کروایا کرتی تھی۔

 ابھی تانی رونے میں مصروف تھی کہ گٹار کی آواز پر اپنا رونا بھول کر دائم  کو دیکھنے لگی، جو پتہ نہیں کب اندر سے گٹار لایا تھا۔

(ایک تو پتا نہیں ہماری تانی کو کچھ پتا کیوں نہیں چلتا🤦🏻‍♀)️

کس کا ہے یہ تم کو انتظار میں ہوں نا
دیکھ لو ادھر تو، 
ایک بار میں ہوں نا
خاموش کیوں ہو، جو بھی کہنا ہے کہو
دل چاہے جتنا پیار اتنا مانگ لو
ہوووووووووو 
تم کو ملے گا اتنا پیار ،میں ہوں نا
کس کا ہے یہ تم کو انتظار میں ہوں نا 
دیکھ لو ادھر تو ایک بار میں ہوں ں نا۔

دائم مسکراتے ہوئے گنگنا رہا تھا اور تانی اپنا رونا بھول کر دائم کو پیچھے سے ہگ کر کہ خوشی سے جھوم رہی تھی۔ اور کیوں نہ خوش ہوتی، آخر جان سے پیارے بھائی نے اس کا پسندیدہ گانا جو گا کر سنایا تھا۔

' اب خوش۔' دائم نے تانی کے سر پر پیار کرتے ہوئے پوچھا۔

' خوش؟ بلکل بھی نہیں، میں خوش نہیں بہہہہتت خوش ہوں۔' تانی کو چہکتے دیکھ کر  دائم مطمئن ہو گیا۔

اس سے پہلے کہ ان دونوں میں کوئی اور بات ہوتی، پورچ میں گاڑی آکر رکی، جس میں سے غزالہ بیگم (تانی کی والدہ) اور اقراء باتیں کرتے ہوئے نکلیں۔

' ویسے ممی ابھی لاسٹ میں جو دیکھی تھی مجھے وہ اچھی لگی۔ باقی سب بھی اچھی تھیں لیکن وہ سب شائے تھیں۔ جبکہ یہ والی بہتر تھی۔' اقراء نرمی سے اپنی رائے کا اظہار کر رہی تھی۔

' ہاں مجھے بھی اچھی لگی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہو گا۔' دونوں باتیں کرتے ہوئے دائم اور تانی کی طرف آگئیں۔

' اسلام علیکم لیڈیز!' دائم  اور تانیہ نے ایک ساتھ سلام کیا۔ 

' وعلیکم السلام!'  اقراء اور غزالہ بیگم مسکراتے ہوئے، کرسیوں پر بیٹھ گئیں۔

' کہاں سے آ رہی ہیں ممی؟' دائم نے پوچھا۔

' فرزانہ کے ساتھ تھے، بتایا تھا نہ کچھ لڑکیاں دکھانے لے کر گئی تھی۔' غزالہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا۔

'ممی ابھی سے؟ اتنی بھی کیا جلدی ہے؟ پہلے پائیز کو  آنے تو دیں!' دائم نے غزالہ بیگم کی جلدبازی دیکھتے ہوئے کہا۔

' جلدی کہاں ہے؟ آج آ جائے گا انشاءاللہ۔ اور کون سا ابھی شادی ہو گی، ابھی صرف لڑکی دیکھ کر منگنی  کریں گے۔ پھر دسمبر تک شادی۔' غزالہ بیگم مزے سے بولیں۔

ان کی پلینگ سن کر دائم اور تانی بے ساختہ ہنس پڑے۔

' ممی پائیز  آج نہیں آ رہا  سنڈے کو آئے گا۔' دائم نے ہنستے ہوئے بتایا۔

' کیوں؟ میری کل ہی تو بات ہوئی تھی پائیز سے۔ مجھے  تو ایسا کچھ بھی نہیں کہا۔' اقراء کو حیرت ہوئی۔

' آج صبح میں نے بھائی کو کال کی تھی، انہوں نے ہی بتایا۔' تانیہ  نے اداس ہوتے ہوئے کہا۔

' کوئی بات نہیں بزی ہوگا۔ اقراء بیٹا آپ فریش ہو جاو پھر ڈنر کی تیاری کر لو۔' پہلی بات تانیہ اور دوسری اقراء کو کہتے ہوئے غزالہ بیگم اٹھ کر اندر چلی گئیں۔

********************

بال بنا کر وہ کچن میں آگیا۔ ٹوسٹر میں بریڈ ڈال کر مگ میں کافی بنانے لگا۔ کافی بنا کر پائیز نے بریڈ کو پلیٹ میں ڈال کر کاونٹر پر رکھا اور کافی کا مگ لے کر وہیں بیٹھ کر کھانے لگا۔

اس مختصر سے ناشتے سے فارغ ہو کر پائیز نے برتن سنک میں رکھے اور کچن سے باہر آگیا۔ ٹھیک گیارہ بجے ڈور بیل کی آواز پر پائیز نے دروازہ کھولا۔ جہاں ایک عمر رسیدہ  خاتون کھڑی تھیں۔

' Good Morning Lady Mary۔' پائیز نے انھیں اندر آنے دیا۔

' Good Morning Paiez۔' لیڈی میری نے مسکراتے ہوئے کہا۔ لیڈی میری پائیز کے ہاں صفائی کے لیے آتی تھیں۔ پائیز ان کی عزت کرتا تھا تبھی انھیں لیڈی میری کہتا تھا۔ 

' Lady Mary! I'm going back.' پائیز نے لیڈی میری سے کہا۔

' Ok dear will clean the flat!' لیڈی میری نے کہتے ہی کچن کا رخ کیا جبکہ پائیز اپنے کمرے کی طرف چل پڑا۔

کمرے میں آکر پائیز نے اپنے سارے ڈوکیومینٹس  ایک بیگ میں رکھے۔ پھر لیپ ٹاپ اٹھا کر یبڈ پر بیٹھ گیا اور شارق اور عریش کو ویڈیو کال کی۔

 عریش، شارق اور پائیز  تینوں چچا زاد تھے اور خوش قسمتی سے تقریباً ہم عمر بھی تھے۔ شارق کی برتھ ڈے فروری جبکہ پائیز مارچ اور عریش کی اپریل میں تھی۔ تینوں کی دوستی خاندان بھر میں مشہور تھی۔ حلانکہ تینوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ عریش کا دوسرا نام مسٹر پرفیکٹ تھا۔ جسے ہر چیز پرفیکٹ چاہئے ہوتی تھی۔ اور عریش  کو ستانے کے لیے ہر وہ کام کرنا پائیز پر فرض تھا جس سے عریش کو چڑ ہوتی۔ جبکہ شارق  سہیر بہت زندہ دل اور خوش اخلاق تھا۔ وہ شارق ہی تھا جو پائیز اور عریش کے درمیان سیز فائر کا کام کرتا تھا۔ اس سب کے باوجود  ان کا ایک دوسرے کے بنا گزارا ممکن نہیں تھا۔ ہر گڑبڑ کے پیچھے انھی کی گینک کا ہاتھ ہوتا تھا۔ بچپن سے لے کر اب تک ان کا ہر کام ایک ساتھ ہوتا تھا۔ سکول سے لے کر کالج تک تینوں ساتھ ہی رہے۔ لیکن کالج کے بعد نا جانے مجتبٰی غازیان کو کیا سوجھی  کہ تینوں  کو  الگ الگ فیلیڈز میں بھیج دیا۔ شارق کو میڈیکل، عریش کو انجیئرنگ اور پائیز کو بقول اس کے، بزنس میں پھینک دیا۔ لیکن یہ دوری ان کی دوستی پر اثر انداز نہیں ہو پائی۔

کال سے فارغ ہونے کے بعد پائیز نے وارڈ روب سے سفری بیگ نکال کر بیڈ پر رکھا اور ترتیب سے سارے کپڑے  بیگ میں رکھنے لگا۔ 

ابھی پائیز اپنی شرٹ رکھ کر مڑا ہی تھا کہ موبائل بجنے لگا۔ پائیز نے موبائل اٹھایا تو ہیری کی کال تھی۔ پائیز نے کچھ سوچتے ہوئے کال اٹھائی۔

'Hello Paiez Mujtaba Speaking!'

' Hey Paiez! How're you dude? I'm good too.. So finaly you're going today! Right؟' ہیری نے ایک ہی سانس میں سب بول دیا مبادہ پائیز ٹوک نہ دے۔

' I'm good and Yes۔' پائیز ن ہیری کے یوں بولنے پر مسکراتے ہوئے کہا۔

' I'll miss you dude!' ہیری نے افسردگی سے کہا۔

' Me too!' پائیز بھی اداس ہوگیا۔

ہیری جیسا بھی تھا پائیز کا واحد دوست تھا جو یونیورسٹی میں بنا تھا۔  پائیز نے ان چار سالوں میں ایک بھی دوست نہیں بنایا تھا لیکن ہیری وہ واحد شخص تھا جس نے پائیز سے دوستی اس کی اچھائی دیکھ کر کی تھی نہ کہ اس کی شہرت سے متاثر ہو کر۔

' Really? Ok done! I'll come to meet you۔' ہیری نے پرجوشی کا مظاہر کرتے ہوئے پلین بنا لیا۔

' haha.. sure why not!' پائیز نے بھی خوشدلی کا مظاہرہ کیا۔

' Tell me the timings, I'll see off you۔'

' Will be leaving at 2۔' پائیز نے بیگ میں کپڑے رکھتے ہوئے کیا۔

' Ok get ready I'm coming with pizza۔' ہیری نے کہتے ہوئے کال بند کردی مبادہ پائیز منع ہی نہ کر دے۔

ہیری کی اس حرکت نے پائیز کو مسکرانے پر مجبور کر دیا۔ کمرے کا جائزہ لیتے ہوئے پائیز  نے لیپ ٹاپ کو کیری بیگ میں ڈالا اور خود نیچے چلا آیا۔

' Paiez I'm done!' لیڈی میری نے اپرن اتارتے ہوئے کہا۔

' Ok here's your fee۔' پائیز نے لیڈی میری کی نتخوا دی۔

' Have a safe journeydear!'  لیڈی میری نے پائیز کا کندھا تھپکتے ہوئے کہا اور اپنا کوٹ پہن کر چلی گئیں۔

پائیز بھی گہرہ سانس بھرتے ہوئے ٹی وی لگا کر ہیری کا انتظار کرنے لگا۔ ٹھیک 1 بجے ہیری پیزا لیے حاضر ہوا۔

' you're late!' پائیز نے سنجیدگی سے کہا۔

' Ohh Man don't be angry! Lets eat this yummy pizza۔' ہیری پائیز کی سنجیدگی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے جلدی سے کیچن سے پلیٹس لایا اور پیزا کھول دیا۔  پائیز بھی آنکھیں گماتے ہوئے پیزا کھانے لگا۔

کھانے سے فارغ ہو کر ہیری نے برتن دھوئے اور پھر وہ دونوں ایئرپورٹ کے لیے نکل گئے۔

' Stay Safe!' ہیری نے گلے ملتے ہوئے کہا۔

' Thank yo! Goodn!'

فلائٹ اناونس ہوتے ہی پائیز چلا گیا۔

********************

   6
2 Comments

Anuradha

10-Sep-2022 03:54 PM

بہت بہت زبردست لکھا 🔥🔥

Reply

Maria akram khan

12-Aug-2022 04:16 PM

MASHA ALLAH MASHA ALLAH buth khoob tinku baby 😘❤️

Reply